
تحریر: عزیز الرحمن
تین مئی 2025ء کی شام جب سورج ڈھل رہا تھا، میں حسبِ معمول علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس میں چہل قدمی کر رہا تھا۔
فضا میں ایک عجب سی طمانیت تھی مگر اچانک میری نگاہ ایک زیرِ تعمیر، جدید اور جاذبِ نظر عمارت پر ٹھہر گئی۔ تجسس نے قدم اس طرف موڑ دیے۔ قریب جا کر دیکھا تو ایک تختی نے راز فاش کیا۔۔۔”ایلومینائی کارنر“۔ دل نے کہا، کچھ خاص ہے یہاں۔صحافت نے سکھایا ہے کہ ہر خاموش دیوار کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔ اسی تجسس کے تحت میں 5 مئی کو ڈائریکٹوریٹ آف اسٹوڈنٹ ایڈوائزری اینڈ کونسلنگ سروسز پہنچا، جہاں منصوبے کے منتظم سید غلام کاظم علی سے ملاقات ہوئی۔ ان کے لہجے میں فخر اور آنکھوں میں امید کی چمک تھی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ خواب وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کے وژن کا نتیجہ ہے۔ایک وژن جو تعلیم کو صرف سند تک محدود نہیں سمجھتا بلکہ اسے کردار سازی، قوم سازی اور سماجی ہم آہنگی کا ذریعہ مانتا ہے۔سید غلام کاظم علی کا کہنا تھا کہ ایلومینائی کارنر وہ جگہ ہوگی جہاں فارغ التحصیل طلبہ اپنی دانائی اور تجربات سے نئی نسل کی راہوں کو روشن کریں گے۔ یہ کارنر اُن سابق طلبہ کی کہانیوں، تجربات اور کامیابیوں کو اجاگر کرے گا جنہوں نے علم کے چراغ سے اپنی راہیں روشن کیں اور آج زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہے ہیں۔ اُن کی جدوجہد، انسپائریشن اور رہنمائی نئے طلبہ کے لیے مشعلِ راہ بنے گی۔یہ اقدام نہ صرف یونیورسٹی اور اس کے فارغ التحصیل طلبہ کے درمیان ایک مضبوط رشتہ استوار کرے گا بلکہ ایک علمی و فکری سلسلہ بھی قائم کرے گا جہاں علم، تجربہ اور بصیرت کا تبادلہ نسل در نسل جاری رہے گا۔آیئے، اس چراغ سے چراغ جلانے کے سفر میں ہم سب شریک ہوں تاکہ علم کی روشنی کبھی مدھم نہ پڑے اور ہر نیا دن ایک نئی اُمید، نئی روشنی اور نئی کامیابی کی نوید لے کر آئے۔گزشتہ برس یونیورسٹی نے اپنی پچاسویں سالگرہ شایانِ شان طریقے سے منائی۔ یہ نصف صدی کا سفر محض وقت کا نہیں بلکہ علم، تحقیق اور کردار سازی کا چراغاں ہے۔ جامعہ نے پچاس لاکھ سے زائد ایسے فارغ التحصیل پیدا کیے جنہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں ملک و ملت کا نام روشن کیا۔انہی کامیابیوں کے اعتراف میں ”ایلومینائی کارنر” وجود میں آ رہا ہے۔ یہ گوشہ نہ صرف ان خدمات کا خراجِ تحسین ہوگا بلکہ مستقبل کے لیے ایک فکری مینار بھی بنے گا۔ یہاں ایلومینائی کی داستانیں، انٹرویوز، نیٹ ورکنگ سیشنز اور موجودہ طلبہ کے لیے رہنمائی سیریز منعقد کی جائیں گی تاکہ نوجوان عملی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔یونیورسٹی کے ممتاز ایلومینائی میں پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف، جنہوں نے اسی ادارے سے ایم فل کیا اور اردو ادب میں بین الاقوامی سطح پر پہچان حاصل کی۔ڈاکٹر افضال طاہر باجوہ، معروف پلاسٹک سرجن، جو میو اسپتال میں خدمات انجام دے رہے ہیں، جنہیں بہترین پلاسٹک سرجن کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر شہزاد علی خان، ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر، جنہوں نے صحت عامہ کے میدان میں نمایاں کام کیا۔”ایلومینائی کارنر” ان کامیاب شخصیات کی کہانیوں کے ذریعے نئی نسلوں کے لیے رہنمائی اور تحریک کا ذریعہ ہوگا۔ڈاکٹر ناصر محمود کا کہنا ہے: ”ہم نے کسی نہ کسی وقت ان چراغوں کو جلایا ہے، اب وقت ہے کہ ان سے مزید چراغ روشن ہوں۔
راقم یہ بات نہایت وثوق اور خلوصِ دل سے رقم کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کی زیرِ قیادت جامعہ نے محض سوا دو برس کی مختصر مدت میں جو علمی، تحقیقی، ثقافتی اور ادبی منازل طے کی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ آج یہ مادرِ علمی نہ صرف فاصلاتی تعلیم کا معتبر مرکز ہے بلکہ ایک ایسی ہمہ جہت علمی تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے جس کے اثرات دور رس اور دیرپا ہیں۔ یونیورسٹی کی فضا ہر روز کسی نہ کسی فکری، علمی یا ادبی سرگرمی سے گونجتی ہے گویا علم کی روشنی یہاں مسلسل فروزاں ہے۔ یہ سب کچھ اُس باکمال قیادت کی مرہونِ منت ہے جس نے وژن، تدبر اور مسلسل جدوجہد سے اس ادارے کو بلندیوں سے ہمکنار کیا۔جہاں قیادت کی بصیرت قابلِ ستائش ہے، وہیں ڈائریکٹر سٹوڈنٹ افیئرز، سید غلام کاظم علی کی محنت، خلوص اور جذبے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اسے غیرمعمولی عزم، دلجمعی اور انتھک محنت سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ پورے اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی زیرِ نگرانی یہ ایلومینائی کارنر نہ صرف ایک مثالی منصوبے کی صورت میں سامنے آئے گا بلکہ فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ایک فعال، باوقار اور دیرپا مرکز کے طور پر اپنی پہچان قائم کرے گا۔ایلومینائی کارنر کی افتتاحی تقریب جلدمنعقد ہونے جا رہی ہے، جس میں ادارے کی انتظامیہ، فیکلٹی ممبران، حالیہ اور سابق طلباء کے علاوہ معزز مہمانوں کی شرکت متوقع ہے۔