
تحریر….عزیز الرحمن
جب قوم کو علم کے نور سے منور کرنے کا خواب دیکھا گیا، تو یہ خواب کسی عام شخص نے نہیں بلکہ پاکستان کے اُس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دیکھا۔ اُن کی دور اندیشی اور تعلیمی بصیرت کا ثمر 1974ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ایک ایسی درسگاہ جو فاصلاتی نظام تعلیم کا پرچم تھامے آج بھی روشنی بانٹ رہی ہے۔اسلام آباد میں قائم اس عظیم جامعہ نے اپنے قیام کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں تعلیم کے میدان میں ایک نئی جہت پیدا کی۔ اس ادارے کا پیغام واضح ہے: ”تعلیم لوگوں کی دہلیز پر”اور اس پیغام کی عملی تعبیر ہمیں ملک کے ہر کونے میں دکھائی دیتی ہے۔جامعہ کے قیام کو پچاس سال مکمل ہو چکے ہیں اور اِن پچاس سالوں میں یونیورسٹی نے ملک کو پچاس لاکھ گریجویٹس دیے ہیں جو کہ ایک شاندار اور بے مثال ریکارڈ ہے۔ اس کامیابی کا سہرا نہ صرف جامعہ کی محنت اور عزم کے سر ہے بلکہ پاکستان کے معروف رہنما ذوالفقار علی بھٹو کے وژن کو بھی جاتا ہے جن کی قیادت میں اس تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی تھی، جس نے نہ صرف علم کے دروازے کھولے بلکہ ملک کو ایسی تعلیم یافتہ نسل دی جو سماجی، اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں اہم تبدیلیاں لا رہی ہے۔
آج مک بھر میں ایسا کوئی گھر نہیں جس میں اس جامعہ کا گریجوٹ یا طالب علم نہ ہو، کوئی ایسا سکول، کالج یا جامعہ نہیں جس میں اس جامعہ کا تربیت یافتہ استاد تدریسی خدمات انجام نہ دے رہا ہو۔ یہاں نہ عمر کی قید ہے نہ جنس نہ مقام کی حد بندی۔ دیہی علاقوں میں بیٹھی وہ ماں، جو بچپن میں اسکول نہ جا سکی یا وہ نوجوان جو روزی کے چکر میں تعلیم ادھوری چھوڑ بیٹھا تھا، شہید ڈولفقار علی بھٹو کی بنائی ہوئی یہ جامعہ سب کو علم کی دولت سے مالا مال کر رہی ہے۔یونیورسٹی کے طلبہ کی تعدادپاکستان کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے طلبہ کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہیں۔ سمسٹر سسٹم، معیاری نصاب اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ ڈگریاں اس ادارے کی پہچان ہیں۔ آج یہاں سے فارغ التحصیل افراد نہ صرف ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک خواب کی تعبیر ہے۔ ایک ایسی شمع، جسے ذوالفقار علی بھٹو نے روشن کیا اور آج وہ چراغ لاکھوں زندگیوں کو منور کر رہا ہے۔ بھٹو صاحب کے بے شمار کارناموں میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا قیام ایک ایسا اہم اور دیرپا کارنامہ ہے جو نہ صرف لائقِ تحسین ہے بلکہ قومی تعلیمی تاریخ میں ایک انمٹ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ادارہ اُن کے وژن، عوام دوستی اور علم دوستی کا مظہر ہے جو آج بھی لاکھوں طلبہ کو تعلیم کی روشنی فراہم کر کے اُن کے خوابوں کو تعبیر دے رہا ہے۔ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود ایک روشن خیال، علم دوست اور وژنری رہنما ہیں۔وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو نہ صرف علم کی روشنی کو عام کرنے کا عزم رکھتے ہیں بلکہ عملی طور پر اس مشن کے لیے سرگرم بھی ہیں۔
دو سال پہلے کی بات ہے۔ وہ دن جب وہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے اُن کے دل میں ایک شعلہ جل رہا تھا۔ انہوں نے کوئی رسمی بات نہیں کی، کوئی روایتی تقریر نہیں کی،بس ایک وعدہ کیا۔ ایک ایسا وعدہ جو کتابوں سے نہیں، دل سے نکلا تھا: ”ہم پندرہ لاکھ طلبہ تک پہنچیں گے۔” اس لمحے الفاظ نہیں اُن کا عزم گویا بول رہا تھا۔ڈاکٹر ناصر محمود اُن چند تعلیمی رہنماؤں میں سے ہیں جو واقعی عملی طور پر کام کرتے ہیں۔وہ خود میدانِ عمل میں اتر کر تبدیلی کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ ہر نئے سمسٹر کے آغاز پرجب داخلوں کا عمل شروع ہوتا ہے تو وہ ملک کے اُن پسماندہ، دور دراز اور کم شرح خواندگی والے علاقوں کا دورہ کرتے ہیں جنہیں عام طور پر تعلیمی منصوبہ بندی میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ دیہی اور نیم شہری علاقوں میں جاتے ہیں، مقامی افراد، قبائلی عمائدین، والدین اور نوجوانوں سے براہِ راست ملاقاتیں کرتے ہیں اُن کے مسائل سنتے ہیں اور اُنہیں تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرواتے ہیں۔ڈاکٹر ناصر محمود کا اندازِ گفتگو دلنشین اور دلوں کو چھو لینے والا ہے۔ وہ نہ صرف لوگوں کو تعلیم کے ذریعے بہتر مستقبل کا خواب دکھاتے ہیں بلکہ اُس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے سہولتوں کی فراہمی کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ آن لائن داخلہ نظام کو سہل اور صارف دوست بنانا، علاقائی زبانوں میں رہنمائی فراہم کرنا، فیس میں رعایت اور اسکالرشپس کے مواقع کو عام کرنا۔ یہ سب اُن اصلاحات کا حصہ ہیں جو انہوں نے یونیورسٹی میں متعارف کروائیں۔ان کا ویژن صرف انرولمنٹ کی تعداد بڑھانا نہیں بلکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانا اور سیکھنے کا عمل ہر گھر تک پہنچانا ہے۔ اُن کے نزدیک تعلیم صرف ڈگری کا نام نہیں بلکہ ایک سماجی انقلاب کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علم کو شہر کی چار دیواریوں سے نکال کر گاؤں، بستی اور قریے تک لے جانا چاہتے ہیں تاکہ ہر بچہ، ہر نوجوان، ہر عورت اور مرد کو سیکھنے کا موقع میسر آ سکے۔پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کی قیادت میں یہ جامعہ محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں رہی بلکہ ایک فکری و تعلیمی تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ راقم الحروف کو کامل یقین ہے کہ اُن کی بصیرت افروز قیادت میں یہ ادارہ ترقی و کامیابی کی نئی بلندیاں سر کرے گا۔