بروکلین نیو یارک: (دنیا انٹرنیشنل) کشمیر مشن یو ایس اے کے نائب صدر تاج خان نے اپنے ایک بیان میں کہا ھے کہ آرٹیکل 370جموں و کشمیر کو خصوصی خود مختار حیثیت دیتا تھا- اسے بھارت نے 5اگست 2019کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا۔ آرٹیکل اے 35ریاست کے مستقل رہائشیوں کو خصوصی حقوق دیتا تھا- اس کا خاتمہ بھی اسی دن کیا گیا۔ اس وقت مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے- یو این قرارداد 47میں کشمیریوں کو استصواب رائے (ریفرنڈم)کا حق دیا گیا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم نہرو اور گاندھی نے ریفرنڈم کے وعدے کیے تھے، جو آج تک پورے نہیں ہوئے۔ آرٹیکل 370کی تبدیلی صرف ریاستی حکومت کی منظوری سے ممکن تھی، لیکن اس وقت مقبوضہ جموں وکشمیر میں کوئی منتخب حکومت موجود نہیں تھی، صرف بھارتی گورنر تھے۔ اس آرٹیکل کو منسوخ کرنے کا مقصد بی جے پی کے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانا،مقبوضہ وادی میں ہندوآبادی کو بسانا اور مقامی مسلمانوں کو اقلیت بنانا، ہندو توا نظریات کو فروغ دینا اور ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا تھا جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ وہاں معاشی تباہی: بے روزگاری 25فیصدسے تجاوز کر چکی ہے، سیاحت اور سیب کی صنعت تباہ، 5لاکھ سے زائد نوکریاں ختم ہوئیں ہیں۔ 10,000طلبا اسکولز کی بندش سے متاثر ہوئے، کشمیری طلبا کو پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کی گئی، لڑکیوں کی خواندگی کی شرح بھی کم ہو گئی ہے۔ اردو کی جگہ ہندی، کشمیری، ڈوگری کو سرکاری زبان بنا دیا گیا، اسلامی رہنماں کی گرفتاریاں کی گئیں، وقف املاک پر قبضہ کیا گیا آبادیاتی تبدیلی: لاکھوں غیر مقامی افراد کو ڈومیسائل اور ووٹ کا حق دے دیا گیا۔ وادی دنیا کا سب سے زیادہ فوجی علاقہ ہے، 10لاکھ بھارتی فوجی تعینات، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں بھارتی اقدامات مکمل طور پر مسترد کیے جا چکے ہیں۔ کشمیری عوام آزادی اور حق خودارادیت چاہتے ہیں، پاکستان سے الحاق کی خواہش رکھتے ہیں۔ پاکستان نے ہر فورم پر بھارتی اقدامات کی مخالفت کی ہے اور کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کی مکمل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیاہے




