اسلام آباد پولیس کی جانب سے تین شہریوں کو حبسِ بےجا میں رکھنے کے خلاف کیس میں چیف جسٹس عامر فاروق نے آئی جی کو واقعے کی تحقیقات کر کے 24 ستمبر کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
ہائیکورٹ نے اسلام آباد پولیس افسران کے نظامِ احتساب پر سوالات بھی اٹھا دیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے ادارے میں اختیارات کے ناجائز استعمال کی انتہا ہے، یہ کیس کلاسک مثال ہے، درخواست گزار وکیل کے مطابق تینوں لوگوں کو 17 ستمبر کو ایس پی آفس سے اٹھایا گیا، پولیس کہتی ہے کہ 19 کو مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا اور اُسی دن ہی ریمانڈ لے لیا، کیا یہ اتفاق ہے کہ بازیابی کی درخواست آنے کے بعد مقدمہ بھی ہوگیا اور ریمانڈ بھی؟ پولیس نے خود کو بچانے کیلئے کاغذی کارروائی پوری کی ہے لیکن میں اتفاقات پر یقین نہیں رکھتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آئل ٹینکرز مسنگ ہونے کا کیس ہے اور ملزمان کا براہ راست تعلق بھی نہیں، یہ کیس اب میرے سامنے آ گیا ہے تو میں اس پر آرڈر کروں گا، میں اس معاملے میں ملوث پولیس افسران کو نہیں چھوڑوں گا۔
چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی پولیس زمینوں پر قبضے اور زمینوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہے، ایک ایس پی ڈھائی ہزار کنال زمین لیتا ہے اور سب اس کو پروٹیکٹ کرنے میں لگ جاتے ہیں، یہ سارا کچھ کہاں سے آ رہا ہے یہ چیزیں کیوں ہو رہی ہیں؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ کیا ہم قابلِ احتساب نہیں ہیں؟ میں تو مجسٹریٹ کے خلاف بھی لکھوں گا کہ کیا مواد موجود تھا کہ اس نے ریمانڈ دے دیا، ایف آئی آر میں تو پولیس اہلکاروں کے بھی ملوث ہونے کا لکھا گیا ہے، پولیس کے کون سے بندے کی شناخت ہوئی ہے؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیاکہ پولیس کا احتساب کا نظام کیا ہے؟ ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او لیول کا بندہ ہزاروں کنال زمین خرید رہا ہے یہ پیسہ کہاں سے آتا ہے؟