
تحریر…..عزیز الرحمن
”کیا کوئی قوم بغیر تعلیم کے عروج پا سکتی ہے؟ کیا ایک نائب قاصد، مالی یا خاکروب اگر قلم تھام لے تو معاشرے کی سوچ نہیں بدل سکتی؟“اقبال نے کہا تھا کہ اقوام کی زندگی میں تعلیم کی حیثیت روح کی سی ہے۔یہی وہ روح ہے جس کے بغیر کوئی معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ جہالت وہ اندھیرا ہے جو انسان سے نہ صرف سوچنے کی طاقت چھین لیتا ہے بلکہ اسے اپنے ہی مقام سے ناواقف کر دیتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس اندھیرے کو مٹانے کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری ہیں اور انہی کوششوں میں سب سے نمایاں اور قابلِ فخر اقدام علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا ایڈلٹ لٹریسی سینٹر ہے۔یہ سینٹر 2017ء میں قائم ہوا، مقصد سادہ مگر عظیم تھا: اُن لوگوں کو پڑھنا لکھنا سکھانا جو بچپن میں کسی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ اس کا عملی روحِ رواں یونیورسٹی کے شعبہ فاصلاتی و غیر رسمی و جاریہ تعلیم کے چیئرمین اور وزیر اعظم روشن پاکستان پروگرام کے ”ایچ ون، ٹیچ ون” کے فوکل پرسن، ڈاکٹر محمد اجمل چوہدری ہیں۔ اُن کی انتھک محنت اور مخلص قیادت نے محض چند برسوں میں ایسے محنت کشوں کی زندگیاں بدل ڈالیں جنہیں معاشرہ برسوں ناخواندگی کے قید خانے میں مقید سمجھتا تھا۔یونیورسٹی کے گارڈز، نائب قاصد، خاکروب اور مالی… وہ سب جو کبھی صرف اپنے ہاتھوں کی محنت پر انحصار کرتے تھے، آج اسی سینٹر کی بدولت اپنا نام لکھ سکتے ہیں، بینک فارم پُر کرسکتے ہیں، بچوں کے ساتھ ہوم ورک میں شریک ہو سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ایک باوقار اور پُراعتماد زندگی گزار سکتے ہیں۔اب تک پانچ تربیتی سیشن کامیابی سے مکمل ہوچکے ہیں، اور حال ہی میں چھٹا سیشن بھی اختتام پذیر ہوا جس میں 25 ملازمین نے خواندگی کورس مکمل کیا۔ 25 اگست کو ایک پروقار تقریب میں انہیں اسناد دی گئیں۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کرتے ہوئے اس موقع کو یونیورسٹی کی سماجی خدمت کا ایک درخشاں باب قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو بھی علم کی روشنی سے منور کر رہی ہے۔ وائس چانسلر نے اس بات پر زور دیا کہ اگلے مرحلے میں ملازمین کے لیے پیشہ ورانہ مہارتوں سے متعلق تربیت کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ نہ صرف اپنے فرائض زیادہ مؤثر انداز میں ادا کر سکیں بلکہ ادارے کی مجموعی کارکردگی میں بھی اضافہ ہو۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ اصل کامیابی صرف علم و ہنر کے حصول تک محدود نہیں، بلکہ مثبت رویوں کی تشکیل اور اخلاقی تربیت بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ ایسی تربیت کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے جو نہ صرف فرد کی شخصیت نکھارے بلکہ معاشرے کو بھی فائدہ پہنچائے، ہر فرد کو دوسروں کے لیے کارآمد بنائے اور اُسے اپنے کام کا حقیقی ماہر ثابت کرے۔ڈائریکٹر ایڈلٹ لٹریسی سینٹر، ڈاکٹر محمد اجمل چوہدری نے کہا کہ اس کورس نے شرکاء کی عملی زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں اور یہ ثبوت ہے کہ تعلیم کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ اُنہوں نے احسان الٰہی کی مثال پیش کی جو یونیورسٹی میں بطور مالی خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن اس سینٹر سے پڑھنا لکھنا سیکھنے کے بعد آج میٹرک پاس کرچکے ہیں۔ یہ اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ لگن اور محنت انسان کو ہمیشہ بلند مقام تک پہنچاتی ہے۔ڈاکٹر طاہرہ بی بی نے بتایا کہ یہ کورس یکم نومبر سے 31 دسمبر تک جاری رہا جس میں 25 ملازمین نے مہارت حاصل کی۔ شرکاء نے جذباتی انداز میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ چیک خود لکھ سکتے ہیں، سائن بورڈ اور اخباری سرخیاں پڑھ سکتے ہیں۔ اُن کے نزدیک یہ چھوٹے چھوٹے کارنامے اُن کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابیاں ہیں۔یہ پروگرام محض حروفِ تہجی سکھانے تک محدود نہیں بلکہ ایک سماجی انقلاب کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ جب ایک خاکروب اپنے دستخط کرتا ہے تو اُس کے دل میں اعتماد جاگتا ہے۔ جب ایک مالی اپنے بچے کی کاپی پڑھ لیتا ہے تو اُس کی آنکھوں میں خوشی کے ستارے جھلملاتے ہیں۔ یہ وہ لمحے ہیں جو بظاہر چھوٹے ہیں مگر دراصل معاشرے کے بڑے تغیر کی بنیاد رکھتے ہیں۔یقیناً اگر ادارے اپنی سماجی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور عملی اقدامات کریں تو ناخواندگی کا خاتمہ کوئی خواب نہیں رہتا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک ایسا پاکستان تعمیر ہوسکتا ہے جہاں تعلیم محض خوشحال طبقے کی میراث نہ ہو بلکہ ہر فرد کو یکساں مواقع میسر آئیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے”تعلیم بالغاں سینٹر”کے ذریعے یہ پیغام دے دیا ہے کہ اگر ارادہ پختہ ہو اور عزم مضبوط تو قلم کی روشنی ہر دل تک پہنچ سکتی ہے۔ جہالت کی رات لمبی ضرور ہے مگر یہ روشنی کے چراغ ایک دن ایسا سویرا لائیں گے جب پورا پاکستان علم و شعور کے نور میں نہا جائے گا۔