بسم اللہ الرحمن الرحیم
قصیدہ در مدح حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ
شبر کو پہناتی ہے اُولوں کی مالا، بناتی ہے بوندوں سے اک تار بارش
غلط سمت میں جارہے ہوں جوبادل، ہواؤں سے کرتی ہے پیکار بارش
گناہوں کے دریا کو سوجھی ہے مستی، اور اُس پار جانے کو کاغذ کی کشتی
تعاقب میں ہیں نفسِ امارہ کے جن، اور آگے ریا کی ہوادار بارش
مگر مچھ کے آنسو، یہ جھوٹے دلاسے، حسد دل میں اور منھ پہ شفقت کے جھانسے
گرجتی ہے لیکن برستی نہیں ہے، دکھاتی ہے نخرے اداکار بارش
چلے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یہ سکھ دکھ، ہر اک سکہ کیفیت کے ہیں دو رُخ
کہیں تو ہے کچے مکانوں کی دشمن، کہیں خواب دہقاں کی معمار بارش
چہکنے لگے روکھی سانسوں کے پتے، لیے جاری ہے ہوا اس کے پھیرے
رکی تھی زمانے سے تخت ازل پر، برسنے لگی وہ جہاں دار بارش
عطش کا پرندہ اڑا شاخِ لب سے گھٹاؤں نے داغی سلامی ادب سے
مچلتی ہے ایسے میں رندوں کی ٹولی، ہے پینے پلانے کا معیار بارش
درودوں نے لفظوں کی سیرت بدل دی، زمیں فصِ مدحت سے یوں لہلہائی
عقیدت سے کشتِ مودت کے سر پر، چلی باندھنے سبز دستار بارش
امنڈنے لگا رحمتِ رب کا بادل، بنی ہے مشیت کا شہکار بارش
اتر آیا ہے موسم لامکانی منانے لگی یعنی تہوار بارش
تجلی نے دھیرے سے آنکھوں کو کھولا، اُدھر کوِ فاراں بنا طورِ سینا
سمیٹے ہوئے گود میں آمنہ ہیں، بصیرت کے موتی، گہر بار بارش
بنی ناتواں اونٹنی رشکِ رف رف، کھلا من سلوی’ کا نورانی مصحف
سب اونچے مکاں دیکھ کر دم بخود ہیں، حلیمہ کے گھر پر ثمردار بارش
ملی ملکیت اُن کو لوح و قلم کی، کئی آفتابوں کی تقدیر چمکی
بنی خامہٗ بخت کی روشنائی، شبِ نور کی سلسلہ وار بارش
عقیدت کی پریوں کے لب پر ترنم، رواجوں پہ شانِ وحی کا تبسم
مُطِر نا بِفَضلِ اور الحمد کی دُھن، سناتی ہے گا گا کے ملہار بارش
ہر اک پیر خانے میں توحید رقصان، امامت ہے ایسی کہ تقلید رقصاں
اُڑھا کر گلِ لا الہٰ کی چادر، کرے خاک دانوں کو گلزار بارش
بشارت اکٹھا ہوئی قطرہ قطرہ، کھُلا کھُلتے کھُلتے وحی کا معمہ
پہاڑوں کا سینہ بھی تھرائے جس سے، ہوئی اُن کے دل پر وہ پُر بار بارش
گئے وقت کی ڈوریاں کھینچتے ہیں، وہی معجزوں کی عناں کھینچتے ہیں
اشارے سے سورج پھرے چلتے چلتے، وسیلے سے ہو جائے ہموار بارش
وہی بدر کیے پیشوا، وہ ہیں غازی، وہی پہلے حافظ، وہ پہلے نمازی
کہیں کفر پر بجلیاں بن کے ٹوٹے، بہائے کہیں عشق کی دھار بارش
کبھی ہیں عیاں سے کبھی ہیں نہاں سے، وہی حق نوا کنکری کی زباں سے
اُٹھاتی ہے سر خاکساری کی گلیاں، گراتی ہے شیخی کا مینار بارش
وہی رازِ وحدت کے شایانِ شاں ہیں، وہی مہمانِ سرِ لا مکاں ہیں
پروں سے امینِ وحی نے کی اُن پر، گلِ قدسیہ کی لگاتار بارش
نہ چھوٹے کہیں معرفت کی کلائی، ہر اک بوند بن جائے امرت کی پیالی
لعابوں کے قطروں کا لینے تبرک وہاں آتی جاتی ہے بیمار بارش
شبِ قدر نے اُن کی نسبت جو پائی، بدلتی رتوں نے دی بڑھ کے بدھائی
فضا میں بہاروں کا رنگیں تبسم، فرشتوں کی ڈولی، ضیا بار بارش
چلے چومنے تجھ کو نیبوں کے والی، سنبھال اپنی دھڑکن اے سنگِ مثالی
لکھے گی تیرے دل پہ روحانی آیت، لبِ جاوداں کی چمکدار بارش
اُدھر خلد کو آرزو لمس کی ہے، طہارت کی چادر اسی سے دُھلی ہے
بر آمد ہوا جس سے کوثر کا جھرنا، وہ زہرا کی ہے تربیت کا ر بارش
شہادت کی طاقوں پہ جذبوں کی رونق، اجالوں کے لب پر سدا نعرہٗ حق
بہتر دیوں کو بجھا تک نہ پائین، منافق ہوائیں ریاکار بارش
وہ پرواز دے دے مرے عشق کو تو، اُڑوں تو میں نقشِ قدم اُن کا چوموں
یہ خواہش ہے میں اوک میں بھر کے پی لوں، وہ گنبد سے ٹکراتی زوار بارش
سیاہی کو اعمال کی صاف کر کے، تشفی سے بھر دیگی دل کے کٹورے
شفاعت کا پرچم اُٹھا کر کھڑی ہے، وہ روزِ جزا کی علمدار بارش
نبیغ التجا ربِ شبیر سے کر، کہ اکبر کو مل جائیں درجاتِ اکبر
انہوں نے لگایا جو مدحت کا پودا، بنائے شجر اس کو فنکار بارش
رشحات عقیدت
نبیغ شبیر
نبیغ شبیر
بزم رضائے مصطفے
سالار قافلہ :
عابد حسین وسلطان چشتی
سالار قافلہ :
عابد حسین وسلطان چشتی
رابطہ
968 1101 943
933 1101 686
968 1101 943
933 1101 686