رپورٹ………عزیز الرحمن
صوبہ خیبرپختونخواہ کے صوابی پولیس اسٹیشن میں جمعرات 26ستمبر کو ایک زور داربارودی دھماکہ ہوا تھا جس میں ایک بچہ شہید اور 31افراد زحمی ہوئے تھے۔محلہ فقیر آباد کے رہائشی محمد اکرم کا 13سالہ ہونہار بچہ(اقتدار)عشاء کی نماز کی ادائیگی کے لئے تھانے کے قریب واقع(ایریگیشن مسجد)آیا تھا۔نماز کی ادائیگی کے فوراً بعد تھانے میں ایک زور دار دھماکہ ہوا جس سے پورا علاقہ لرز اٹھا اور تھانے کی چھت ہوا میں اڑھ کر کنکریٹ کے ٹکڑے دور دور تک علاقے کے ہر کونے، ہر گھر میں گرگئے تھے، تھانے کے بالکل قریب مسجد کے در و دیوارکو بھی کافی نقصان پہنچا تھا جس میں یہ بچہ ملبے تلے آکر شہید ہوا، اس شہادت کی خبر پورے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سننے والوں کی آنکھیں درد غم سے اشک بار ہوئیں۔والدین کو کیا خبر تھی کہ نماز کے لئے جانے والا اُن کے جگر کا یہ ٹکڑا واپس لوٹ کر نہیں آئے گا۔بیٹے کی شہادت کی خبر شہید کی والدہ پر بجلی بن کر گری جس کے نتیجے میں اُن کی حالت غیر ہوگئی اور اُن پر غشی کے دورے پڑنے لگے اور وہ بے ہوش ہوگئی۔کمسن بچوں کی وفات پر والدین کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئیے، یہ قدرتی امر ہے کہ اولاد کی موت ماں باپ کے لئے بہت بڑے غم اور صدمے کا باعث ہے، اس لئے اولاد کی موت کو اللہ تعالی کی رضا سمجھ کر صبر کرنے پر والدین کے لئے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔حضور پاکﷺ کا ارشاد ہے “جس مسلمان کے نابالغ بچے مریں گے وہ جنت کے آٹھوں دروازوں سے اس کا استقبال کریں گے کہ جس سے چاہے داخل ہو”۔آپﷺ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا “قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو بچہ اپنی والدہ کے پیٹ میں(روح پھونکے جانے سے پہلے)بھی ساقط(ضائع)ہوجائے، اگرثواب الہی کی امید میں اس کی ماں صبر کرے تو وہ اپنی نال(ناف سے ملا ہوئے حصے)سے اپنی ماں کو جنت میں کھینچ لے جائے گا۔بچوں کی یاد میں آنسو آجانے میں کوئی برائی نہیں البتہ شکوہ شکایت کے اندار میں کوئی جملہ ہر گز نہیں بولنا چاہئیے، اللہ تعالی سے صبر کی دعا کرنا چاہئیے۔راقم اپنی اس تحریر کی وساطت سے اقتدار کے والدین کو صبر کا دامن تھامے رکھنے کی درخواست کرنا ضروری سمجھتا ہے کیونکہ یہ بچہ والدین کو جنت میں لے جانے کا باعث بنے گا۔
شہید بچے کے والدین سمیت صوابی بالخصوص محلہ فقیر آباد کے عوام حکومتی عہدیداروں بطور خاص تحریک انصاف کے رہنما سابق سپیکر قومی اسمبلی، اسد قیصر کی آمد اور آزمائش کی اِن گھڑیوں میں ساتھ کھڑے ہونے کے منتظر تھے لیکن افسوس کہ مقامی سیاسی شخصیات، حاجی دلدار خان، بابر سلیم، واحد شاہ کے علاوہ کسی حکومتی عہدیدار نے جنازے میں نہ ایصال ثواب کے لئے تین روزہ دعائیہ محفل میں شرکت کی۔ اسد قیصر کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، انہیں اپنے سیاسی جلسوں کے ساتھ علاقے کے اُن غریب لوگوں(جن کی ووٹوں سے وہ اس مقام پر پہنچا ہے)کے دکھ درد میں شامل ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اِن سیاسی لوگوں نے پھر ہمارے پاس آنا ہوتا ہے، ہمارے بغیر اِن لوگوں کی سیاست چل ہی نہیں سکتی۔والدین، غم زدہ خاندان، محلہ فقیر آباد اور صوابی بھر کے عوام پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر، وزیر اعلی خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پوراور وزیراعظم پاکستان، شہباز شریف سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ صوابی پولیس اسٹیشن کی عمارت میں دھماکے سے شہید ہونے والے بچے’اقتدار’کے اہلخانہ کے لئے مالی امداد کا اعلان کریں۔ مقامی انتظامیہ سے صوابی کے عوام ایک اور مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ تھانے کے ساتھ ہی ٹوپک چوک کا نام شہید بچے کے نام سے منسوب کرکے اس چوک کا نام “شہید اقتدارخان چوک”رکھ دیا جائے۔ چوک اقتدار کے نام سے منسوب کرنے سے شہید بچے کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گا۔اقتدار کی شہادت پر ابھی تک اقتدار میں خاموشی ہے۔علاقے کے منتخب حکومتی عہدیداران کو جنازے میں شرکت نہ کرنے کی تلافی کرکے فوری طور پر شہید بچے ‘اقتدار’ کی شہادت کو اقتدار سے سنوارنے کا انتظام کریں، غم زدہ والدین کے لئے مالی امداد کا اعلان کریں، بصورت دیگر صوابی کے عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اُن کے ووٹوں کے صحیح حقدار حاجی دلدار خان اور بابر سلیم ہی ہیں کیونکہ یہ دونوں سیاسی شخصیات جائے وقوع حادثہ سے لے کر ہسپتال، غم زدگھر، دعائیہ محفل، جناز گاہ اور قبرستان میں ہر خاص و عام کو نظر آئے ہیں اور ہر جگہ پیش پیش غم زدہ گھرانوں کے دردوں کا مداوا کررہے تھے